About Me

My photo
Subject Teacher B.Sc, M.A., B.Ed SET PhD (Registered) Z P Urdu Upper Primary School, Kothali. Tq. Motala Dist. Buldhana. 443103 Mo. 9850155656 Email :- husainsir78692@gmail.com

Wednesday, 5 May 2021

پیسوں کی مشین ۔۔۔۔۔۔ بچوں کے لئے معلوماتی کہانی

پیسوں کی مشین ابّو جان، یہ پلاسٹک کا کارڈ لیجیے آپ کی جیب سے گِر گیا تھا۔۔۔ شاید۔ ثاقب نے کارڈ والد کی طرف بڑھا تے ہوئے کہا۔ شاباش بیٹے۔۔۔۔۔۔ مجھے دو۔۔۔۔ بیٹا یہ ایک قیمتی کارڈ ہے۔ ہم پیسے نکالنے کے لئے جا رہے تھے۔ اس لئے یہ اے ٹی ایم کارڈ میز پر رکھا تھا۔ وہاں سے نیچے گر گیا ہوگا۔ ابّو جان،اس کارڈ سے پیسے کیسے نکلتے ہیں؟ اور کتنے پیسے نکلتے ہیں؟ ثاقب نے سوالات پوچھا۔ بیٹا، ہمارا بینک میں کھاتا ہے۔ اس میں ہم پیسے جمع کرتے ہیں۔ جتنے روپئے ہمارے کھاتے میں جمع ہیں‌۔ اتنے پیسے ہم قسط وار نکال سکتے ہیں۔ اس سے ذیادہ روپئے نہیں نکال سکتے ہیں۔ اچھا ابو جان۔۔۔۔۔۔ ثاقب نے کہا۔ سب لوگوں کے کارڈ ایک جیسے ہوتے ہیں؟ نہیں بیٹا۔۔۔۔۔ ہمیں کارڈ یکساں نظر آتے ہیں۔ مگر کارڈ نمبر الگ الگ ہوتے ہیں۔ جیسا یہاں دیکھو۔ ان اعداد کی گنتی کرو۔۔۔۔ سلیم نے ثاقب کو کارڈ کا نمبر بتاتے ہوئے کہا۔ ایک ۔۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔۔ چار۔۔۔۔پانچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سولہ ابو جان سولہ اعداد ہیں۔ ہاں ثاقب یہ سولہ عددی نمبر ہر کاڈر کا الگ ہوتا ہے؟ اس پر میرا نام‌ بھی لکھا ہوا ہے۔ یہ دیکھو۔۔۔۔۔ پڑھو۔۔۔۔۔ ثاقب بولا۔۔۔۔ ایس ۔۔۔۔ ایل۔۔۔۔ آئے۔۔۔۔۔ایم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ 'سلیم شیخ ' شاباش بیٹا۔۔۔۔۔ تم تو بہت ہوشیار ہو۔ انگریزی‌بھی پڑھ لیتے ہو۔ اس کارڈ پر ایک اور نمبر ہوتا ہے۔ تم اس کارڈ کا معائینہ کرو اوروہ نمبر تلاش کرو تو ذرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ابو تلاش کرتا ہوں۔ ثاقب نے کارڈ ہاتھ میں لیا اور بغور دیکھنے لگا۔ سامنے دوسرے نمبر نظر نہیں آئے تو اس نے کارڈ کو پلٹا کر دیکھنا شروع کیا۔ تب تک سلیم باہر جانے کی تیاری کرنے لگا۔ شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے سلیم نے پوچھا۔ "کیا ہوا نمبر نظر نہیں آیاکیا؟" ہاں ابو مل گیا یہ تین عدد کارڈ کے پیچھے لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے آگے اور کچھ لکھا ہے کیا؟ سلیم نے موزے پہنتے ہوئے پوچھا۔ ہاں ابو جان چار عدد ہیں۔ ثاقب نے جواب دیا۔ یہ تین نمبرات CVV نمبر ہوتے ہیں‌۔ Card Varification Value کارڈ کی قیمت کا تصدیقی نمبر ہوتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ کارڈ میں رقم کتنی ہے۔ اس نمبر کو بھی کسی سے شئیر نہیں کرنا چاہیے۔ اور وہ چار عدد ہمارے کارڈ کے آخری چار نمبر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ سمجھے !!!! اچھا۔۔۔۔۔۔ ابو جان ۔۔۔۔۔۔۔ "اب یہ بتاؤاس کارڈ سے پیسے کیسے نکلتے ہیں؟" میں پیسے نکالنے کے لیے ہی جا رہا ہوں۔ تم ساتھ چلو۔ تمہیں بتاتا ہوں کہ اس اے ٹی ایم کارڈ سے پیسے کیسے نکالتے ہیں۔ ارے واہ ۔۔۔۔۔۔۔ سچ ۔۔۔۔۔ ثاقب خوشی سے اچھل پڑا۔ اے ٹی ایم مشین پر پہنچ کر سلیم نے اپنے بیٹے ثاقب سے کہا۔ دیکھو بیٹا!!!! یہ اے ٹی ایم مشین ہے۔ ATM کا مطلب Automated Teller Machine ہوتا ہے۔ اس میں اس طرح کارڈ کو داخل کرتے ہیں۔ سلیم نے کارڈ مشین میں ڈالتے ہوئے ثاقب سے کہا۔ ابو جان کیا اس کارڈ سے کوئی بھی پیسے نکال سکتا ہیں۔؟ نہیں بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ ثاقب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سلیم نے کہا۔ یہ دیکھو کارڈ داخل کرنے کے بعد اپنا خفیہ چار عددی کوڈ ڈالنا ہوتا ہے۔ تب ہی روپئے مشین سے نکلتے ہیں۔ یہ دیکھو اس جگہ سے پیسے باہر آتے ہیں۔ میں نے دو ہزار روپئے کی رقم ڈالا تھا۔ یہ پانچ ۔۔۔۔۔ پانچ سو۔۔۔۔۔۔ کے چار نوٹ نکلے ہیں۔ ارے واہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو بالکل نئے نئے ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ کورے کورے نوٹ ہیں۔ ثاقب نے ہاتھ میں لیتے ہوئے پُر مسرت طریقے سے کہا۔ کیا میں بھی اس کارڈ سے پیسے نکال سکتا ہوں۔ ہاں اگر تمھارے پاس کارڈ کے ساتھ پِن کوڈ ہو تو۔۔۔۔۔۔ جو میں نے ڈالا تھا۔ سلیم نے مشین کی اسکرین دیکھاتے ہوئے کہا۔ یہ پیسوں کی مشین ہے۔ لوگ اس کے ذریعے نقد پیسے نکالتے ہیں۔ آپ نے مجھے اپنا کوڈ نمبر بتایا نہیں۔ ثاقب ناراضگی کے انداذ میں بولا۔ اس کوڈ نمبر کو نہایت حفاظت سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ کسی کے ہاتھ لگ جائے تو ہمیں نقصان ہو سکتا ہیں۔ سمجھے نا۔۔۔۔۔۔ بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔ ثاقب نے کہا۔ ہاں ابو جان۔۔۔۔ بیٹا اس پِن نمبر کو بار بار وقفے سے تبدیل کرتے رہنا چاہئے۔ اسی مشین سے ہم کوڈ کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ سلیم نے ثاقب کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ابو جان, اس مشین میں پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ ابو نے ثاقب کو مشین کا پچھلا حصہ دکھاتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھو بیٹا ۔۔۔۔۔۔ یہاں سے اس مشین کو بینک کے مینیجر صاحب کھولتے ہیں۔ اور اسمیں چھوٹے چھوٹے ڈبے ہوتے ہیں۔ اس میں روپئیوں کو ترتیب سے ڈالتے ہیں۔ جتنے پیسے مشین میں ڈالے جاتے ہیں اتنے باہر نکلتے رہتے ہیں۔ اچھا ۔۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ یہ تو بہت اچھا نظام ہیں۔۔۔۔ ابو جان، ثاقب نے کہا۔ ہاں بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں پرذیادہ وقت نہیں لگتا ہیں۔ کوئی پرچے بھی بھرنا نہیں ہوتا ہیں۔ جہاں چاہو جتنے چاہو پیسے نکال لو۔ یہ لوگوں کے لئے سہولت والی پیسوں کی مشین ہیں۔ سلیم نے اپنے بیٹے کو سمجھایا۔ ثاقب ہنستے ہوئے سلیم کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آئے۔۔۔۔۔۔ سلیم نے ثاقب کا ہاتھ پکڑا اور مسکراتے ہوئے کہا ، مستقبل میں ایسے ہی ڈیجیٹل طریقوں سے روپیوں پیسوں کا کاروبار ہوا کریگا۔ تم ابھی سی اسے سمجھکر سیکھتے رہو۔۔۔۔۔۔؟۔ ازقلم حُسین قریشی بلڈانہ مہاراشٹر

No comments: